۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ غدیر نعروں کا نہیں عمل کا نام ہے، غدیر ہم سے نعروں سے زیادہ عمل چاہتی ہے، اگر ہمارے نعرے اور عمل میں تضاد پیدا ہو تو پھر ہم غدیری کہلانے کے قابل نہیں....! 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف محقق و مؤلف اور اہلِ بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے عید غدیر کی مناسبت سے حوزہ نیوز ایجنسی کے صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ دکھ و درد اور نقصان دہ بات یہ ہے کہ جشنِ غدیر منایا جائے مگر یہ پتہ نہ ہو کہ غدیر کیا ہے اور غدیری کہتے کسے ہیں؟!

مولانا موصوف نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ غدیر میں دیے ہوئے سانچے میں خود کو ڈھالنے کیلئے صرف جشن و سرور کافی نہیں ہے بلکہ اس کے اصول و ضوابط پر چلنا ضروری ہے۔غدیر، نبوت و رسالت کا تسلسل ہے کہ انسان اس کی روشنی میں سیدھا راستہ دیکھ لے اور اس پر چل کر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے۔ ولایت امير المؤمنین ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کوجوڑ سکتاہے۔یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جوبکھرے ہوئےموتیوں کو اکھٹاکرسکتا ہے...یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو بےضمیرانسانوں کو ضمیر کی دولت سے مالاما ل کرسکتاہے۔غدیر علم و حکمت کاخزانہ ہے، معرفت کاسرچشمہ ہے ،رشد و ہدایت اورنصیحت کامخزن ہے، یہی نقطہ اعتدال اور یہی صراط مستقیم ہے۔جواسے چھوڑکر ہدایت حاصل کرناچاہے گا اللہ اسے گمراہ کردے گا۔

غدیر  رفعت دین و ایمان میں چار چاند لگنے کا دن ہے

انہوں نے کہا کہ غدیر انبیاء و مرسلین کی تمام عمر کا ماحصل و نچوڑ ہے غدیر رسالت و نبوت کا امامت و ولایت سے عشق و عقیدت کی حسین داستان ہے غدیر سے عشق و عقیدت ہمارا سرمایہ ایمان ہے غدیر مؤمن کی پہچان اور ہمارا اہم عقیدہ و جان ہے۔

مزید کہا کہ غدیر صاحبان ایمان کے لئے خدا اور اس کے رسول کی جانب سے ایک منفرد مقام اور خاص اعزاز ہے ، محبانِ علی کے لئے راہ سعادت، متلاشیان حق کے لئے شمع ہدایت ہے، غدیر مؤمنین و صادقین کی معراج اور منتہائے تمناہے تو کفار و مشرکین اور منافقین کی مایوسی و ناامیدی و نامرادی کا دن ہے
 
انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غدیری ہونا یعنی تلوار کی دھار پر چلنے والا، کفر و نفاق اور شرک و بدعت سے دوری اختیار کرنے والا۔ غدیری ہونے کا مطلب حق کی زبان ، نیک اعمال ، انصاف اور جمہوریت میں استقامت اور انصاف کے حصول میں کوشش اور،ہنگامہ خیز دنیا کے زاویے کو تبدیل کرنا ہے۔ 

مولانا تقی عباس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غدیر نعروں کا نہیں عمل کا نام ہے، غدیر ہم سے نعروں سے زیادہ عمل چاہتی ہے، اگر ہمارے نعرے اور عمل میں تضاد پیدا ہو تو پھر ہم غدیری کہلانے کے قابل نہیں....! 

آخر میں کہا کہ عید غدیر کا دن اپنے مولا اور وقت کے امام سے تجدید عہد وفا کا دن ہے کہ اے امام المتقین، اے یعسوب الدین اور اے صاحب عصر والزمان ! جب تک ہمارے سینوں میں دل دھڑک رہے ہیں ،آنکھوں میں دم ہے ،دماغ میں سوچنے اورسمجھنے کی توانائی ہے ،اورجسم میں ترک واختیار کی قوت ہے، ہرہرقدم اورہرہرموڑپر ہم غدیر کے احکامات کے احیا و فروغ میں کوشاں رہیں گے اور آپ کے دامن ولایت سے متمسک رہیں گے۔خداوند عالم کے ممنون و مشکور ہیں کہ اس نے ہمیں آپ اور آپ کی آل کے دامن ولایت و امامت سے ہمیں متمسک رکھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .